قال الامام الکاظم علیہ السلام: "رجل من اھل قم یدعو الناس الی الحق، یجتمع معہ قوم کزبر الحدید لا تزلھم الریاح العواصف ولا یملون من الحرب ولا یجبنون، و علی اللہ یتوکلون و العاقبۃ للمتقین۔
امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا: اہل قم میں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی دعوت دےگا، ایک گروہ آہن کی طرح استحکام کے ساتھ اس کی ہمراہی کرےگا جسے حوادث کی تند ہوائیں ہلا نہیں پائیں گی، وہ لوگ جنگ سے تھکن محسوس نہیں کریں گے اور نہ ہی ڈریں گے، وہ لوگ خدا پر بھروسہ رکھنے والے ہونگے (اور بہترین) عاقبت تو پرہیزگاروں کےلئے ہے۔
بحار الانوار، ج/۶۰، ص/۲۱۶۔
فرزند رسول حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام تقریبا" 35 سال مسند امامت پر فائز رہے مگر اس میں سے بیشتر حصہ، قید و بند میں گزارا یا پھر جلا وطن رہے۔ یہ حالات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ کے زمانے میں اہل بیت علیہم السلام کے سلسلے میں عباسی حکمرانوں کی سختیاں اور دشمنی کس قدر شدت اختیار کرگئی تھی۔ جس چیز نے فرزند رسول حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو اپنے دور کے حالات کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کیا وہ مسلمانوں پر حکمفرما فاسد سیاسی اور سماجی نظام تھا۔ عباسی حکمرانوں نے حکومت کو موروثی اور آمرانہ نظام میں تبدیل کردیا تھا۔ ان کے محل بھی حکمرانوں کے لہو ولعب اور عیش و نوش و شراب و کباب کا مرکز تھے اور ان بے پناہ دولت و ثروت کا خزانہ تھے جو انہوں نے لوٹ رکھے تھے۔ جبکہ مفلس و نادار طبقہ غربت، فاقہ کشی اور امتیازی سلوک کی سختیاں جھیل رہا تھا۔ اس صورتحال میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام لوگوں کی سیاسی اور سماجی آگہی و بصیرت میں اضافہ فرماتے اور بنی عباس کے حکمرانوں کی روش کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیتے، دوسری طرف ہارون الرشید اس بات ک اجازت نہيں دیتا کہ لوگ امام کے علم و فضل کے بحر بیکران سے فیضیاب ہوں اور وہ اس سلسلے میں لوگوں پر سختیاں کرتا۔ لیکن ہارون الرشید کی ان سختیوں کے جواب میں امام کا ردعمل قابل غور تھا۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہر مناسب وقت سے فائدہ اٹھا کر خداوند عالم کے حضور نماز و نیایش اور تقرب الہی میں مصروف ہوجاتے۔ آپ پر جتنا بھی ظلم و ستم ہوتا وہ صبر اور نماز سے سہارا لیتے۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہر حال میں صبر و شکر ادا کرتے۔ بصرہ کا زندانباں عیسی بن جعفر کہتا ہے: میں نے بہت کوشش کی کہ امام پر ہر لحاظ سے نظر رکھوں یہاں تک کہ چھپ چھپ کر ان کی دعاؤں اور نیایش کو سنتا تھا مگر وہ فقط درگاہ خداوند سے طلب رحمت و مغفرت کرتے اور وہ اس دعا کی بہت زيادہ تکرار فرماتے "خدایا تو جانتا ہے کہ میں تیری عبادت کےلئے ایک تنہائی کی جگہ چاہتا تھا اور اب جبکہ تو نے ایک ایسی جگہ میرے لئے مہیا کردی ہے، میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں"۔
فرزند رسول امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اپنے ایک مقام پر فرماتے ہیں: "عرش الہی پر ایک سایہ ہے جہاں ایسے لوگوں کو جگہ ملےگی جنہوں نے اپنے بھائیوں کے حق میں نیکی اور بھلائی کی ہوگی، یا مشکلات میں ان کی مدد کی ہوگی"۔
امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے ایک صحابی کے جواب میں اپنے فرزند امام موسیٰ کاظم کی توصیف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "میرا بیٹا موسیٰ کاظم علم و فضل کے اس درجہ کمال پر فائز ہے کہ اگر قرآن کے تمام مطالب و مفاہیم اس سے پوچھو تو وہ اپنے علم و دانش کے ذریعے انتہائی محکم اور مدلّل جواب دےگا۔
امام موسیٰ کاظم (ع) کو جس آخری قید خانے میں قید کیا گيا اس کا زندان باں انتہائي سنگدل تھا جس کا نام "سندی بن شاہک یہودی" تھا۔ اس زندان میں امام پر بہت زیادہ ظلم و ستم ڈھایا گيا اور بالآخر ہارون رشید کے حکم پر ایک سازش کے ذریعہ امام کو زہر دے دیا گیا اور تین دن تک سخت رنج و تعب برداشت کرنے کے بعد 55 سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
خدا کا درود و سلام ہو اس پر کہ جس کے صبر و استقامت نے دشمنوں کو گھنٹے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔
فرزند رسول امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی جانگداز شہادت کی مناسبت سے آپ کی خدمت میں تعزيت پیش کرتے ہوئے۔
وہ برتر چیزیں جو خدا سے بندہ کی قربت کا سبب بنتی ہیں وہ خدا کی معرفت کے بعد نماز، والدین سے نیکی، ترک حسد و خودپسندی و عُجُب ہے۔
التماس دعا